Latest Post

Wednesday, 28 January 2015

جہاں سے پورا مُلک چلتا ہے ، وہیں لوگوں کی زندگی پر ایک نظر ڈالیں - مرید بگٹی


یہ تصویر بلوچستان کے شہر سوئی کی ہے جہاں ۱۹۵۲ کو قدرتی گیس دریافت ہوا اور تب سے لے پاکستان کے کونے کونے تک پہنچایا گیا ہے اور کروڑوں لوگ اس سے مستفید ہورہے ہیں اور پنجاپ سمیت پاکستان کے گھر گھر میں یہ گیس استعمال کی جارہی ہے اور کارخانے چلائے جارہے ہیں لیکن خود سوئی ۱۹۵۲ سے لیکر آج تک اس گیس سے محروم ہے اور یہا ں کے بچوں کو بنیادی تعلیم تو دور کے بات پینے کا صاف پانی تک میسر نہیں ہے اس تصویر میں دیکھا جاسکتاہے کہ گیس کی پائپ لائن گزر رہی ہے جو پنجاپ کو گیس کی سپلائی کرتی ہے اور اس کے سات ہی اسی گیس کے مالک بگٹی بلوچوں کے بچے پھٹے پرانے کپڑوں میں زمین پر بیٹھ کر ایک ایسے سکول میں پڑھ رہے ہیں جس کو معلم کی فیس بھی ان غریب بچوں کے والدین ادا کرتے ہیں اگر ہم دنیا کے دیگر ممالک کا مطالہ کرے تو جو وسائل جہاں سے نکلتی ہے سب سے پہلے ان پر مقامی لوگوں کا حق ہوتا ہے اور پر قریبی علاقوں کا پھر ریاست اس پر اپنے ٹیکس مقرر کرتی ہے دور نہیں تو پنجاپ کو ہی دیکھ لے جہاں ڈیرہ بگٹی میں آپریشن کے بعد لوگ پنجاپ گئے تو مزدوری کی تلاش کے لیے میرا ایک دوست فیصل آباد گیا اور ایک فیکٹری میں انٹرویوں دینے گیا تو اسے وہاں سے یہ کہہ کر نکالا گیا کہ یہاں پہلے مقامی لوگوں کو نوکری دی جائے گی بعد میں اگر کوئی خالی بچا پھر آپ کوشش کرے تو اس نے کہا بھائی آپ کے فیکٹری میں جو گیس استعمال ہورہی ہے وہ ہمارے علاقے سے آتی ہے اور ہم آج تک اس سے محروم ہے تو اس کو فوری طور پر پولیس سے گرفتار کروایا گیا پھر اس بچارے نے کچھ پیسے دیکر اپنی جان پچا لی ۔ لیکن اس فوٹوں کے میں جو پائپ لائن گزر رہی ہے وہ پنجاپ جاتی ہے اور اس کے مالک ساتھ میں زمین ہر پیٹھے پڑھنے پر مجبور ہےان میں ان لوگوں سے سوال کرتا ہوں جو پاکستان کا مالا جبتے ہے کہ کیا ایسا صرف غلاموں کے ساتھ نہیں کیا جاتا؟ اس گیس کے مالک ہوتے ہوئے تم اس سے محروم ہو اور جو لوگ تم پر قابض ہے تمہارے وسائل کو لوٹ رہے ہیں ان کے لیے دل میں ہم دردی کیوں کیا تم نے غلامی قبول کی ہے جس غلامی کے خلاف شہیدنواب اکبر خان بگٹی نے پیرا سالی میں اپنی جان قربان کردی جس کے خلاف نواب براہمدغ بگٹی نے اپنی جوانی کی خوشیوں کو ٹھوکر مار کر پھاڑوں کو مسکن بنا لیا ہزاروں بلوچ نوجوان آج بھی لاپتہ ہے لیکن مجھے حیرت ہوتی ہے سوئی کے نوجوانوں پر کہ کہا گئی ان کی بلوچی غیرت کہ وہ دو ٹکے پنجابی کے غلامی کو قبول کرنے کو تیار ہے اور بھول گئے ہے نواب اکبر خان اور ہزاروں فرزندوں کی قربانیوں کو جنہیوں نے ہمارے خوشحال مستقبل کے لیے اپنی قیمتی جانیں قربان کردی یہ بات ہمارے لیے باعث شرم ہونی چاہیے۔ 

Post a Comment

 
Back To Top